Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

Responsive Advertisement

سندھ میں پھیلتی ہیضے کی وبا

کراچی سمیت سندھ میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور موسمی تغیر (کلائمینٹ چینج) وبائی امراض کے لیے ساز گار ثابت ہورہا ہے، گزشتہ ماہ مارچ، 1961 سے لے کر اب تک کا گرم ترین مہینہ تھا، جس کی وجہ سے ہیضہ (کولرا)، اسہال (ڈائریا) اور خسرہ ( میزلز) جیسی وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

کراچی سمیت سندھ میں کولرا (ہیضہ) کی وبا پھیل گئی ہے، رواں برس 25 اپریل تک سندھ میں ہیضے کے 129 تصدیق شدہ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں، جب کہ محکمہ صحت سندھ میڈیا سے کیسز چھُپا رہا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں خصوصا اسہال اور ہیضے کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے۔ ہیضہ جیسے بیماری کی روک تھام ممکن ہے لیکن آلودہ پانی اور ہاتھ نہ دھونے کی وجہ سے ہیضہ پھیل رہا ہے۔،

ہیضہ کیا ہے ؟ 

معروف پیڈاٹریشن ڈاکٹر آفتاب نے سما ڈیجیٹل کو بتایا کہ ہیضہ ایک بیکٹریا ہے جسے ویبریو کولرا  کو کہتے ہیں، یہ وہ جراثیم ہے جو آلودہ پانی کے ذریعہ انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے، ذخیرہ کیا ہوا پانی، سوئمنگ پولز کا پانی جو صاف نہ کیا جاتا ہو ، بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنائی گئی جگہیں یا پانی ذخیرہ کرنے والی جگہوں میں یہ جراثیم پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو دنیا کہ زیادہ تر ممالک سے ویبریو کولرا ختم ہوچکا ہے لیکن اب بھی ملیشیا، ایتھوپیا، انڈیا، بنگلہ دیش میں یہ رپورٹ ہوتا ہے خاص کر ایتھوپیا کی کچی آبادیوں اور دیہی علاقوں میں ہیضہ اب بھی رپورٹ ہو رہا ہے۔

گزشتہ سال دنیا بھر میں ہیضے کے ایک اندازے کے مطابق چار ملین کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ان میں سے چالیس سے ساٹھ ہزار اموات ہوئی ہیں کیونکہ ہیضہ اتنا برا جراثیم ہے۔

جب یہ پیٹ کو متاثر کرتا ہے تو چار سے بارہ گھنٹوں کے دوران آپ کسی معالج یا اسپتال کے پاس نہیں جاتے تو آپ کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے کیونکہ یہ جب انسان کو متاثر کرتا ہے تو پورا نظام ہاضمہ تباہ کردیتا ہے۔

ڈاکٹر آفتاب نے بتایا کہ جس بھی انسان کو یہ وائرس ہو اس کے جسم کا پورا پانی نکال دیتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا دماغ کام کرنا چھوڑ سکتا ہے، اس کے نتیجے میں انسان کی موت ہو سکتی ہے۔

قومی ادارہ صحت برائے اطفال (این آئی سی ایچ ) کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جمال رضا نے سما ڈیجیٹل کو بتایا کہ متاثرہ شخص کے جسم سے پانی جسم سے بہت زیادہ نکل رہا ہوتا ہے اور پانی کی کمی ہوجاتی ہے، ڈی ہائیدریشن اس کا علاج ہے، کچھ اینٹی بائیوٹک بھی کام کرتی ہے، جیسے کے زنک وغیرہ شامل ہیں۔

پہلے کولرا کی ویکسین بھی دی جاتی تھی لیکن پھر کولرا کے کیسز ختم ہوگئے تھے، اس لیے اب اس ویکسین کا استعمال ختم ہوگیا ہے، اب اگر کولرا دوبارہ سر اُبھارے گا تو یہ ویکسین دینی چاہیے، یہ ہر عمرکے فرد کو ہوسکتا ہے، علاج اس کا سب کے لیے ایک ہی ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیضہ سے متاثرہ شخص کو او آر ایس دینا چاہیے کیونکہ پانی کی کمی کی وجہ سے اموات بھی ہوجاتی ہیں۔

حکومتی اقدامات کیا ہوں؟؟ 

ڈاکٹر آفتاب نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں دو مختلف اپروچیز ہوتی ہیں، ایک اربن اور دوسری رولر اپروچ ہے، ایسے میں حکومت کو فوری طور پر کچھ اقدامات کرنے چاہئیں، حکومت کو فوری طور پر کولرا ٹریٹمنٹ ٹیمز تشکیل دینی چاہئیں، جس میں دو چار ایمبولینسز بھی شامل ہوں۔

یہ ٹیمیں ان علاقوں میں تعینات ہونگی جہاں دو چار کیسز رپورٹ ہوئے ہوں یعنی جہاں یہ وبا پھوٹ چکی ہو،حکومت متاثرہ علاقوں میں کیمپس قائم کرے کیونکہ آپ کے پاس دو سے چار گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں ہوتا ہے۔

 متاثرہ شخص یا بچے کو فوری طور پر ڈی ہائیڈریڈ کرنا ہوتا ہے، یہاں چوبیس گھنٹے آپ کی ٹیمز اور ایمبولینسز تیار ہونی چاہئیں، کیمپ میں موجود تربیت یافتہ عملہ ہر متاثرہ بچے یا شخص کو او آر ایس یا ڈی ہائیڈریڈ کرکے اینٹی بائیوٹک اسی وقت دے دیں تاکہ ڈی ہائیڈریشن (پان کی کمی) سے بچا جائے۔

اسے ہم اربن ٹریٹمنٹ کہتے ہیں کہ آپ اسی علاقے میں اپنی ٹیمز کو بھیج دیں، اس میں جلدی سے تشخیص اور فوری طور پر علاج ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری اپروچ یہ ہے کہ جس علاقے میں کیسز ہو رہے ہیں وہاں ہزاروں کی تعداد میں او آر ایس کے پیکٹ تقسیم کیے جائیں تاکہ متاثر افراد میں پانی کی کمی نہ ہو۔

یہ بیماری آلودہ پانی سے ہوتی ہے ایسے علاقوں کو جہاں کسی ایسی جگہ سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے وہ اپنے پانی کو عالمی ادارہ صحت کے اصولوں کے مطابق کلورینیٹ کرے۔

 اس وقت دریاؤں اور نہروں میں پانی موجود نہیں ہے تو جو پرانا پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے وہی فراہم کیا جارہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ ہر اسپتال میں ڈائریا اور گیسٹرو یونٹس بنائے کیونکہ ڈائریا کے کیسز بہت زیادہ آرہے ہیں۔

احتیاطی تدابیر 

پروفیسر جمال رضا اور ڈاکٹر آفتاب نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ شہریوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے گھر میں آنے والے پانی (چاہے لائن کا ہو یا باہرسے آرہا ہو) کو اُبال لیں، دوسری سب سے اہم بات واش روم جانے کے بعد اور کھانا کھانے سے پہلے ہاتھوں کو ضرور دھوئیں۔

اگر کسی برتن میں پرانا پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے تو وہ نکال کر تازہ پانی بھر لیں، باہر سے لایا ہوا سلاد یا پھل، سبزیاں انہیں صاف پانی سے دھوئیں، گھر سے بازاری رائتہ اور چٹنی کھانے سے گریز کریں، حتیٰ کہ ایک دن پرانا کھانا کھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بازاری اشیا کھانے سے گریز کریں کیونکہ آپ کو معلوم نہیں کہ کون سا پانی استعمال کیا گیا ہے، سب سے اہم بات پانی اُبال کر پئیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو ڈائریا ہو تو او آر ایس استعمال کریں، اسے آپ تعویز سمجھ لیں، جس کو بھی ڈائریا ہو تو وہ بغیر ڈاکٹر کے پوچھے او آر ایس استعمال کر لے، اس وقت موسم گرم ہے کوشش کریں افطاری میں او آر ایس پئیں۔

رمضان کے بعد فیلڈ میں کام کرنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ گھر آکر او آر ایس ضرور پئیں۔

ڈاکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کلائمینٹ چینج سے بھی اس کا تعلق ہے، نہروں میں جو پانی آتا ہے وہ مئی کے آخر میں یا جون سے پہلے آتا ہے، اس وقت نہروں میں جو پانی ہے وہ پرانا ذخیرہ کیا ہوا ہے، ویبریو کولرا 58 درجہ حرارت تک پانی میں رہ سکتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ گرمی کا جراثیم ہے۔

مارچ کا مہینہ گرم ترین مہینہ 

محکمہ موسمیات کے ایک ماہانہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ ’مارچ 2022 کا مہینہ 1961 سے لے کر اب تک کا گرم ترین مہینہ تھا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ ماہ ملک میں بارشیں بھی معمول سے 62 فیصد کم تھیں، اپریل کے مہینے میں بھی یہی صورت حال ہے کیونکہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان سمیت ملک کے وسیع علاقوں کے بیشتر میدانی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔

محکمہ صحت سندھ  

اس وقت یہی دیکھا گیا ہے کہ محکمہ صحت سندھ کی جانب سے کیسز چھپائے جا رہے ہیں، چند روز قبل وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کی جانب سے ای پی آئی کے دفتر میں ہونے والی پریس کانفرنس میں ایک صحافی کی جانب سے کولرا کیسز سے متعلق سوال کیاگیا تو انہوں نے تردید کی تھی کہ اس وقت سندھ میں کوئی کیسز رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

دوسری جانب محکمہ صحت سندھ کے ذرائئع سے حاصل کی گئی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس رواں سال 25 اپریل تک ہیضے کے 129 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ہیضے کے جنوری میں 5، فروری میں 14، مارچ میں 54 اور اپریل کے 25 دنوں میں ہیضے کے 56 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ وہ کیسز ہیں جو لیب سے تصدیق شدہ ہیں۔

اس کے علاوہ کراچی ، حیدرآباد، نواب شاہ، میرپور خاص اور سکھر سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں ڈائریا کے کیسز میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔



from SAMAA https://ift.tt/2DAqohd

Post a Comment

0 Comments