پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پاور سیکٹر کے سرکاری اہلکاروں کو مفت بجلی کی فراہمی روکنے کی سفارش کردی گئی ہے۔
نور عالم خان کی سربراہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں مختلف امور پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اجلاس کے دوران سیکرٹری توانائی نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں نقصانات دفاعی بجٹ کے حجم سے بھی زیادہ ہیں، گزشتہ سال بجلی کے شعبے میں 1100 ارب کے نقصانات ہوئے۔
سیکرٹری توانائی نے مزید کہا کہ پچھلے سال شعبے میں 2 ہزار ارب روپے کے اخراجات ہوئے، ان اخراجات میں سے 800 ارب روپے کا ریکوری گیپ ہے، ملک میں بجلی کے 2 کروڑ 80 لاکھ گھریلو صارفین ہیں، جن میں سے 80 لاکھ افراد کو بجلی پر سبسڈی دی جارہی ہے، دو تہائی افراد کو سبسڈی دیں تو کاروبار نہیں چلے گا۔
اجلاس کے دوران نور عالم خان نے کہا کہ توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو کو بجلی مفت کیوں دی جاتی ہے؟
سیکرٹری پاور ڈویژن بھی ملازمین کو مفت بجلی نہ دینے کے حامی نکلے، انہوں نے کہا کہ توانائی کا شعبہ جنجال میں پھنسا ہے، بجلی کی پیداواری لاگت پوری نہیں ہوتی، کچھ کوتاہیاں اور نالائقیاں ہماری اپنی بھی ہیں،مفت بجلی کے بجائے تنخواہ میں الاونس دے دیا جائے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی نے پاور سیکٹر کے افسران و ملازمین کو مفت بجلی دینے کی سہولت ختم کرنے کی سفارش کردی۔
کے الیکٹرک حکام کی سخت سرزنش
چیئرمین نور عالم خان کےالیکٹرک کے سی ای او کی غیرحاضری پر شدید برہم ہوگئے، انہوں نے اجلاس میں شریک کےالیکٹرک حکام کی سخت سرزنش کی گئی ۔
چیئرمین پی اےسی نے کےالیکٹرک کے سی ای او کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے کہا کہ کراچی کے عوام مررہے ہیں اور آپ کمیٹی کو سنجیدہ نہیں لے رہے، کے الیکٹرک کے سی ای او اگلی بار نہ آئے تو گرفتار کیا جائے۔
نور عالم خان اور شبلی فراز میں جھڑپ
اجلاس کے دوران نور عالم خان نے کہا کہ پی اے سی میں زیر بحث ہونے والی ہر دستاویز کی نقل میڈیا کو دی جائے، چاہتا ہوں پی اے سی کی ہر چیز براہ راست عوام کو دکھائی جائے، عوام کو پتہ ہونا چاہیے ان کے نمائندے کیا سوالات اٹھا رہے ہیں۔
نور عالم خان نے کہا کہ میرے پاس ایک رپورٹ ہے 14 ارب روپے ایک دن میں استعمال کیے گئے، ثبوت کے ساتھ رپورٹ پیش کروں گا۔
شبلی فراز نے تجویز کی سختی سے مخالفت کر دی، ان کا کہنا تھاکہ کوئی غیر تصدیق شدہ یا غیر حتمی چیز میڈیا میں تقسیم نہ کی جائے۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/9HhOuSE
0 Comments