Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

Responsive Advertisement

بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں کے دوران مزید 7 افراد جاں بحق

** آفت زدہ صوبے بلوچستان میں حالیہ مون سون بارشوں سے مزید 7 افراد جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد 127 تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا آج خیبر پختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ ضلع ٹانک کا دورہ خراب موسم کے باعث ملتوی کردیا گیا۔**

دورہ ٹانک

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے آج بروز اتوار 31 جولائی کو بذریعہ ہیلی کاپٹر ٹانک کا دورہ کرنا تھا۔ دورے کے دوران وزیر مواصلات کی جانب سے وزیراعظم شہبازشریف کو ٹانک کی صورت حال سے آگاہ کیا جانا تھا، جب کہ این ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ حکام کی جانب سے بھی بریفنگ شیڈول میں شامل کی گئی تھی۔ دورے کے دوران وزیراعظم نے سیلاب زدگان متاثرین سے ملاقاتیں اور متوقع امداد کا اعلان بھی کرنا تھا۔

دورہ بلوچستان

قبل ازیں ہفتہ 30 جولائی کو وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا، جب کہ انہوں نے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ بھی لیا۔ متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران چیف سیکریٹری بلوچستان نے وزیرِ اعظم کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں پر بریفنگ دی، اس موقع پر وزیراعظم نے امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کا حکم دیا۔

شہباز شریف نے مختلف علاقوں میں سیلاب متاثرین سے ملاقات بھی کی اور سیلاب سے جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے فی کس 10 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھاکہ سیلاب سے تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر کیلئے 5 لاکھ روپے دیں گے اور جن گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ان کو دو لاکھ روپے یا اس سے زیادہ رقم دیں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ بلوچستان حکومت بھی سیلاب سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے امداد دے گی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سیلاب سے جو فصلیں تباہ یا مویشی ہلاک ہوئے، اس کے حوالے سے کمیٹیاں بنادی ہیں، وفاق کی سطح چار کمیٹیاں بنی ہیں جو چاروں صوبوں سے مشاورت کرکے سروے کریں گی، یہ کمیٹیاں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں سے بھی مشاورت کریں گی۔

شہباز شریف کا کہنا تھاکہ کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ اور لسبیلہ میں بہت تباہی مچی ہے، پچھلے 30 سال کا بارشوں کا ریکارڈ ٹوٹا ہے، 100 گنا زیادہ بارشیں ہوئیں، بلوچستان حکومت سے مل کر بھرپور کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں 300 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، جب کہ بلوچستان میں خواتین اور بچوں سمیت124 لوگ جاں بحق ہوئے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں 24 جولائی سے شروع ہونے والے مون سون کے تیسرے اسپیل نے صوبے میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔

ہفتے کو سیلاب اور بارشوں سے مزید سات افراد جب کہ ایک ہفتے کے دوران 27 افراد جاں بحق اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد 127 تک پہنچ گئی ہے۔ ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کوئٹہ اجمل شاد کے مطابق بلوچستان میں مون سون کی بارشوں نے 30 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ صوبے میں معمول سے چار سے پانچ گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔

این ڈی ایم اے

قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ماہ سے جاری بارشوں نے ژوب سے لے کر گوادر تک صوبے کے تمام 34 اضلاع کو متاثر کیا ہے۔ سرکاری و نجی عمارتوں، ڈیموں، سڑکوں، پلوں، ریلوے ٹریکس، زراعت اور گلہ بانی سمیت ہر شعبے کو نقصان پہنچا ہے۔

رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں اب تک 13 ہزار 320 مکانات جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جب کہ 23 ہزار مال مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ 500 کلومیٹر سے زائد سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے۔

پی ڈی ایم اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل طارق نے بتایا کہ 24 جولائی سے شروع ہونے والے مون سون کے اسپیل نے لسبیلہ اور جھل مگسی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، جہاں سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہونے کی وجہ سے رابطہ سڑکیں بہہ گئیں اور متاثرہ علاقوں تک ابھی بھی زمینی رسائی نہیں۔ اس لیے کشتیوں اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کیا جا رہا ہے۔

ڈپٹی کمشنر لسبیلہ افتخار بگٹی کے مطابق اب تک مختلف دیہاتوں میں پھنسے ہوئے پانچ ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیلابی ریلوں میں بہنے اور مختلف حادثات میں ایک ہفتے کے دوران 11 افراد کی موت ہو چکی ہے، جب کہ مجموعی طور پر 16 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

لسبیلہ میں گزشتہ ہفتے طوفانی بارش کے بعد سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رخ کیا تھا۔ حب ڈیم بھرنے کے بعد دو لاکھ کیوسک سے زائد پانی کا اخراج ہوا جس سے بڑی آبادی زیرآب آئی۔

لسبیلہ ( Lasbela )

خضدار اور باقی بالائی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بھی لسبیلہ کے بیلہ شہر اور گردونواح کو متاثر کیا۔ بیلہ میں پانچ بند ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے پوری بیلہ تحصیل زیرآب آگئی۔ این 25 کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ نو مقامات پر پل اور سڑکیں بہنے سے چھ دنوں تک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہی، جسے سنیچر کو آٹھ مقامات پر بحال کردیا گیا، تاہم اوتھل کا علاقہ لنڈا ندی کے مقام پر پل بہنے کی وجہ سے اب تک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔

سیکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں۔ بلوچستان سے کراچی جانے والے پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل بھی معطل ہے جس کی وجہ سے زمینداروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

لسبیلہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو روحانہ گل کاکڑ نے بتایا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر پھنسے ہوئے مسافروں اور ڈرائیوروں کو ایک غیر سرکاری ادارے کی مدد سے کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔

لسبیلہ کی تین تحصیلوں لاکھڑا، بیلہ اور اوتھل کو سیلاب نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ تحصیل لاکھڑا، دریجی اور کنراج کا چھ دنوں سے باقی پورے ضلع سے زمینی رابطہ منقطع ہے۔ سیکڑوں لوگ اب تک پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے کے لیے فضائی آپریشن جاری ہے۔

لسبیلہ کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق ضلع میں کپاس کی فصل کاٹنے کے لیے سندھ سے تقریباً 20 ہزار مزدور آئے تھے، جن کی اکثریت سیلاب میں پھنس گئی۔ ان مزدوروں کے ساتھ بچے اور خواتین بھی ہیں۔ متاثرین کے لیے اوتھل کی جاموٹ کالونی میں ریلیف کیمپ لگایا گیا ہے، لیکن متاثرین نے شکایت کی ہے کہ ’انہیں کھانا اور ضروریات کی اشیا نہیں مل رہی۔

ایک متاثرہ شخص رضا جاموٹ نے بتایا کہ ’ہمیں یہاں نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ ہی پانی۔ لوگ بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں اس لیے کیمپ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق کوئٹہ کراچی کے علاوہ آواران گوادر، خضدار تا رتوڈیرو اور گنداوا جھل مگسی شاہراہیں ٹریفک کے لیے بند ہیں، جب کہ لسبیلہ، جھل مگسی، نوشکی، کیچ، گوادر اور آواران میں بجلی اور مواصلاتی نظام متاثر ہوا ہے۔

جھل مگسی ( Jhal Magsi )

جھل مگسی میں طوفانی بارش اور خضدار سے دریائے مولا کے ذریعے آنے والے سیلای ریلوں نے پورے ضلع کو ڈبو دیا ہے۔ جھل مگسی کا باقی صوبے سے چھ دنوں سے رابطہ منقطع ہے۔ گنداوا جیکب آباد شاہراہ سمیت دیہاتوں کو ملانے والی رابطہ سڑکیں ہر قسم کی آمدروفت کے لیے بند ہیں۔

علاقے میں سڑکیں بہہ جانے کی وجہ سے آمدروفت ممکن نہیں جس کی وجہ سے درجنوں دیہاتوں میں لوگ محصور ہیں اور خوراک کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ تاہم صوبائی حکومت اور پاکستانی فوج ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں خوراک پہنچا رہی ہے۔

چاغی ( Chagi )

چاغی میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے تباہ شدہ ریلوے ٹریک آٹھویں روز بھی بحال نہ ہوسکے، جس کی وجہ سے زاہدان جانے والے ٹرینیں دالبندین اور یک مچ ریلوے اسٹیشن میں کھڑی کردی گئی ہیں۔ حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث آحمد وال کے مقام پر انگریز کے دور میں بنایا گیا سو سالہ پل سیلابی ریلے کی وجہ سے زمین بوس ہوگیا۔

سورگل، احمد وال، جوجکی اور دیگر مقامات پر ریلوے ٹریک کی پٹری کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ انتظامیہ کے مطابق ٹریک کی بحالی کا کام جاری ہے، تاہم سیلابی پانی جمع ہونے کی وجہ سے کام میں مشکلات کا سامنا ہے۔

کوہلو ( Kholu )

کوہلو کے موجودہ حالات سے متعلق صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے بتایا کہ کوہلو ضلع میں ہونے والی شدید بارشوں کو خود مانیٹر کررہا ہوں، ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکام کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں، کسی بھی صورت حال کے پیش نظر بروقت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے عوام کے ساتھ کھڑا ہوں اور ہر جگہ سے مقامی لوگوں کے ساتھ مکمل رابطے میں ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں نے صوبے کو بری طرح متاثر کیا، جس سے کئی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ انفراسٹرکچر کو شدید نقصان اور رابطہ سڑکیں متاثر ہوئیں۔ صوبائی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے بھرپور اقدامات اٹھا رہی ہے۔

اس موقع پر انہوں نے تحصیل ماوند اور منجھرا کے ندی نالوں میں بڑے سیلابی ریلے کے پیش نظر شہریوں کو شاہراہ پر سفر سے گریز کی ہدایت بھی کی۔

مقامی ذرائع کے مطابق کوہلو میں مقامی آبادی کو الرٹ جاری کردیا گیا ہے، جب کہ لوگ مال مویشی اور خاندان کے افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کررہے ہیں۔

گانچھے

دوسری جانب شمالی علاقہ جات کے علاقے گانچھے میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی ریلے نے تباہی مچا دی۔ سیلابی ریلے سے کونیس میں ستائیس گھر اور بلغار میں پندرہ گھر مکمل تباہ ہو گئے۔

انتظامیہ کے مطابق دریائے مشہ بروم میں اونچے درجے کا سیلاب ہے، جہاں غورسے رائشہ میں حفاظتی بند ٹوٹنے سے سیلاب کا پانی آبادی میں داخل ہوگیا، اس دوران قدیم تاریخی مسجد بھی زیر آب آگئی۔ سیلاب سے ضلع کے مختلف علاقوں میں رابط سڑکیں بھی تباہ ہوگئیں۔

سیلاب سے خپلو، کونیس، بلغار اور غورسے میں کھڑی فصلیں تباہ، درختوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔



from Samaa - Latest News https://ift.tt/4r1CZiN

Post a Comment

0 Comments