دریائے سوات اور کابل کا سیلابی پانی خیبر پختون خوا میں تباہی مچانے کے بعد اب پنجاب میں داخل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کالاباغ اور چشمہ کے مقام دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔
ملک بھر میں غیر متوقع بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔
این ڈی ایم اے (NDMA) نے سیلاب سے نقصانات کے تازہ اعداد و شمار جاری کردیے ہیں جس کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے اب تک 1033 افراد جاں بحق اور 1527 زخمی ہوئے ہیں۔
سندھ میں347، بلوچستان میں 238، خیبرپختونخوا میں 226 ، پنجاب میں 168، آزاد کشمیر میں 38 اورگلگت بلتستان میں 15 افراد جاں بحق ہوئے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے اب تک 149 پل تباہ اور 3451 کلومیٹر شاہراہوں کو نقصان پہنچا، 9 لاکھ 49 ہزار سے زائد گھر تباہ جب کہ 7لاکھ 91 ہزار مویشی پانی میں بہہ گئے۔
خیبر پختونخوا
خيبرپختونخوا ميں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹاں بجنے لگی ہیں، نوشہرہ میں ایک بار پھر اعلی درجے کا انتباہ جاری کر دیا گیا ہے، دریائے کابل میں سیلاب کا تین لاکھ سات ہزار کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے اور سیلابی پانی مرکزی جی ٹی روڈ پر آ گیا ہے۔
دریائے سوات سے مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار کا ریلا آج سہہ پہر میں داخل ہوگا۔
سوات میں پھنسے سیاحوں کو نکالنے کیلئے پاک فوج کا ریسکیو آپریشن کیا گیا اور خوازہ خیلہ میں 110 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا، آپریشن میں آرمی ایوی ایشن کے چار ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا، تمام افراد کو سوات پہنچا دیا گیا ہے۔
وادی کالام میں پھنسے 35 افراد کو بھی ریسکیو کرلیا گیا ہے ، بچوں اور خواتین سمیت یہ افراد رابطہ پلوں کے بہہ جانے کے بعد کالام میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔
کاغان میں بھی صورت حال انتہائی خراب ہے، کئی رابطہ پل ٹوٹ گئے ہیں جس کی وجہ سے کاغان کے مختلف علاقوں کا ملک سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور یہاں کے مقامی افراد کے لئے اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
خصوصی کنٹرول روم قائم
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے سیلاب زدگان کے لیے خصوصی کنٹرول روم قائم کردیا ہے۔
عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی یا ہنگامی صورتحال میں پی ڈی ایم اے ہیلپ لائن 1700 یا وزیراعلی کنٹرول روم 1800 پر رابطہ کریں۔
متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے
وزیر محنت خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی نے چارسدہ کے دورے کے دوران کہا کہ خیبر پختونخوا میں سیلاب سے 230 افراد جاں بحق ہوئے، اب تک 34 ہزار سے زائد مکانات اور 50 سے زائد ہوٹل تباہ ہوچکے ہیں۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی ،وزیر اعلی خود ریسکیو اور ریلیف آپریشن کی نگرانی کررہے ہیں ،جلد نقصانات کا سروے شروع کیا جائے گا۔
وزیر محنت نے کہا کہ صوبائی حکومت نے جاں بحق افراد کی امداد 3 لاکھ سے بڑھا کر 8 لاکھ روپے جب کہ تباہ شدہ گھروں کی امداد 1 لاکھ سے بڑھا کر 3 لاکھ کردی ہے۔
پنجاب
خیبر پختونخوا میں تباہی مچانے کے بعد اب سیلابی ریلوں نے پنجاب کا رخ کرلیا ہے۔
تونسہ بیراج پر پانی کی آمد پانچ لاکھ پندرہ ہزار کیوسک جب کہ میانوالی کالاباغ کے مقام پر چار لاکھ پچیس ہزار کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے۔
تونسہ کے نواحی علاقے کبی قیصرانی میں سیلاب نے تباہی مچادی ہے سیلاب سے سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ۔
جنوبی پنجاب کے اضلاع لیہ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے سیلاب زدہ علاقوں سے اب بھی متاقثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا کام جاری ہے۔
راجن پور میں فضائی امدادی آپریشن کے دوران متاثرین کو راشن بیگز اور ٹینٹوں کی شکل میں امداد فراہم کی جارہی ہے۔ فورٹ منرو کے قریب ايک ہفتے سے بند قومی شاہراہ جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہے تاہم لینڈ سلائیڈنگ اور رش کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔
بلوچستان
حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ بلوچستان تاحال مشکلات سے دوچار ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 242 ہو گئی ، 61 ہزار سے زائد گھر تباہ ہو چکے ہیں،
ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں واقع ولی تنگی ڈیم ٹوٹنے کی افواہ نے بھگدڑ مچا دی۔
کوئٹہ میں پھیلی بے چینی کو دور کرنے کے لئیے ڈی سی کوئٹہ خود میدان میں آئے، انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ کوئٹہ محفوظ ہے لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا تو انتظامیہ فوری طور پر حرکت میں آئے گی۔
پشین میں دو افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے ، کوہلو میں رابطہ سڑکیں بند ہونے کے باعث خوراک کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے، مستونگ میں قومی شاہراہ بہنے کے سبب پاکستان اور ایران کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہے۔ نوشکی میں بھی متعدد دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔
دوسری جانب کوئٹہ، قلات، پشین اور مستونگ میں گیس کی سپلائی معطل ہونے سے شہری پریشان ہیں۔
مستونگ کی تحصیل دشت کو بھی بے رحم موجوں نے لپیٹ میں لے ليا، جس کی وجہ سے باغات، فصلوں اور ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا ہے۔ سبی کوئٹہ شاہراہ 16ويں روز بھی بحال نہ ہوسکی۔
سندھ
سندھ ميں بارشوں اور سيلاب سے گاؤں کے گاؤں ڈوب گئے ہیں، نوابشاہ، دادو اور لاڑکانہ میں ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ قنبر شہدادکوٹ سیلاب کے باعث مرنے والے مویشیوں کی لاشیں پانی اور سڑک کنارے پڑی ہيں۔ جن سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
دریائے سندھ میں ٹھٹہ سے نچلے درجے کا سیلابی ریلہ گزر رہا ہے۔ سجاول پُل بند ہونے سے 35 دیہات زير آب آگئے ہیں۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/eLsCQFj
0 Comments