سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان ( Imran Khan ) کی خاتون جج کو دھمکیوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ ( Islamabad High Court ) میں توہین عدالت ( Contempt Court ) کے نوٹس پر سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ ( چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار) کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سابق وزیراعظم اور چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کیس کی سماعت کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
سماعت جاری
سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حامد صاحب تحریری جواب میں جو پڑھا اس کی توقع نہیں تھی، حامد خان آپ صرف عمران خان کے وکیل نہیں عدالتی معاون بھی ہیں، توقع تھی آپ یہاں آنے سے پہلے ماتحت عدالت سے ہو کر آئیں گے، توقع تھی آپ عمل سے ظاہر کریں گے قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں۔ جس ماتحت عدالت پر بات کی گئی وہ عام آدمی کی عدالت ہے۔ عام آدمی کو آج بھی ہائی کورٹ تک رسائی نہیں ملتی۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس بنانے کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے، مجھے توقع تھی کہ کہا جائے گا کہ غلطی ہوگئی، توقع تھی آپ ان عدالتوں میں جا کر کہیں گے ہمیں آپ پر اعتبار ہے، گزرے وقت کی طرح کہے گئے الفاظ بھی واپس نہیں ہوتے۔ عمران خان کے قد کے آدمی کو کیا ایسا کرنا چاہیے تھا؟، ٹارچر کا معاملہ تو ہم نے بھی 3سال بلا خوف اٹھایا، ٹارچر کی تو 70سال میں ریاست نے خود حوصلہ افزائی کی، سب سے بدترین تشدد جبری گمشدگیاں ہیں، سیاسی لیڈر کے فالوورز ہوتے ہیں اسے کچھ کہتے ہوئے سوچنا چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ کاش 3 سال میں اسی جوش و جذبے سے ٹارچر کا معاملہ اٹھایا جاتا، اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے اسد طور اور ابصار عالم کے کیس کا بھی حوالہ دیا اور حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مؤکل کو شاید احساس ہی نہیں کہ ہوا کیا، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی، اسی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس نے شہباز گل کا معاملہ واپس ریمانڈ کیا۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے بات کرنی چاہی تو عدالت نے ان کو بات کرنے سے روکتے ہوئے سرزنش کی اور کہا کہ آپ خاموش رہیں یہ عدالت اور مبینہ توہین عدالت کے ملزم کے درمیان معاملہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ جب معاملہ زیرالتوا تھا تب کیا عوام میں ایسے بیان کا کوئی جواز تھا؟۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جج اور عدلیہ تنقید کیلئے کھلی ہیں جتنی مرضی تنقید کرلیں، جب بات فیئر ٹرائل اور زیر التوا کیس کی ہو تو پھر معاملہ الگ ہے۔
کیس کا پس منظر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے رجسٹرار کی رپورٹ پر 22 اگست کو معاملے کا نوٹس لیا تھا، جس کے بعد 23 اگست کو تین رکنی بینچ نے کیس پر پہلی سماعت کی تھی ۔ عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 31 اگست کو طلب کیا گیا تھا۔ عدالت نے معاملے پر لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسری جانب عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کے نوٹس پر جواب داخل کرادیا گیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے ایڈووکیٹ حامد خان اور بیرسٹر سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرایا۔
اپنے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میں سمجھا تھا کہ زیبا چوہدری جوڈیشل نہیں ایگزیکٹو مجسٹریٹ ہیں، مجھ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی، تاہم اپنے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے بینچ پر اعتراض بھی لگایا گیا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے استدعا کی کہ جن ججوں نے کیس شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی وہ خود کو بینچ سے دستبردار ہونے پر غور کریں، کیونکہ انہوں نے اس معاملے کا پہلے سے فیصلہ کرلیا تھا۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا کہ حکومت شہباز گل کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور انہیں پامال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
جواب میں استدلال کیا گیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے کوئی توہین نہیں کی گئی اور ڈپٹی رجسٹرار نے 20 اگست کو اسلام آباد کے ایف 9 پارک میں جلسہ عام کے دوران کی گئی تقریر سے چن کر لفظوں کا انتخاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان الفاظ کو سیاق و سباق سے بالکل ہٹ کر لیا گیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ تاثر دینے کے لیے چھیڑ دیا گیا کہ گویا مدعا علیہ (عمران خان) قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔
عمران خان نے کیا کہا تھا
عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے والی ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔
شہباز گل کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ شہباز گل کو جس طرح اٹھایا اور دو دن جو تشدد کیا، اس طرح رکھا جیسا ملک کا کوئی بڑا غدار پکڑا ہو، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، ہم نے آپ کے اوپر کیس کرنا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی کو تشدد کیا، کمزور آدمی ملا اسی کو آپ نے یہ کرنا تھا، فضل الرحمان سے جان جاتی ہے۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/0mWyuO1
0 Comments