صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے علاقے ٹیری میں مندر کو نقصان پہنچانے والوں نے معافی مانگ لی۔ قومی اسمبلی کے رکن رمیش کمار نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت نے مندر کو نقصان پہنچانے والوں سے کچھ ریکوریاں کیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں کرک مندر نذر آتش کرنے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ آج بروز جمعہ 20 جنوری کو ہونے والی سماعت میں قومی اسمبلی کے اقلیتی رہنما رمیش کمار پیش ہوئے۔
اس موقع پر رمیش کمار نے معزز عدالت کو بتایا کہ کرک مندر کو تزئين و آرائش کر کے بحال کر ديا گيا ہے، علاقے میں اب ہندوؤں اور مسلمانوں میں اچھی ہم آہمنگی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت نے مندر کو نقصان پہنچانے والوں سے ریکوری کا حکم دیا تھا، صوبائی حکومت نے مندر کو نقصان پہنچانے والوں سے کچھ ریکوریاں کیں۔
عدالت سے استدعا میں رمیشن کمار نے کہا کہ عدالت مناسب سمجھیں تو یہ ریکوری کا سلسلہ روک دیا جائے، مندر کو نقصان پہنچانے والوں نے معافی مانگ لی ہے۔ عدالت نے رمیش کمار کی استدعا منظور کرتے ہوئے مندر کو نقصان پہنچانے والوں سے نقصان کی ریکوری روکنے کا حکم دیدیا۔
تاریخی سمادھی
واضح رہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے 31 دسمبر کو صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کے ہاتھوں ہندو بزرگ کی سمادھی نذرآتش کرنے کا نوٹس لیا تھا۔
شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔
واقعہ کا پس منظر
یہ واقعہ 30 دسمبر سال 2020 کو پیش آیا تھا، جب ہجوم نے خیبرپختونخوا میں کرک کے علاقے ٹیری میں ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) کو نذرآتش کردیا تھا، جب کہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔
شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد یہاں آتے تھے۔
واقعے سے متعلق پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ سمادھی پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔
عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ ہجوم کی قیادت ایک مذہبی جماعت کے حمایتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی جارہی تھی۔ مشتعل ہجوم کے افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔
بعد ازاں مذکورہ واقعے کی سوشل میڈیا پر کافی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی تھیں جبکہ حکام نے بھی نوٹس لیتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا اور 2 مذہبی رہنما مولانا محمد شریف اور مولانا فیض اللہ سمیت متعدد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/hkowrex
0 Comments