قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ آج تک اس ملک میں کس طبقے کا احتساب ہوا ہے ؟ کیا جنرل باجوہ اور دیگر اس بات کا جواب دینگے کہ دہشتگردوں سے کس کے کہنے پر مذاکرات کیے گئے؟ کیا چند اشخاض جہنوں نے طالبان کو واپس لاکر بسایا، ان کا احتساب ہوگا؟
فل کورٹ کی درخواست
جمعہ 24 فروری کو قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اظہار خیال کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو کیس سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں، اس کے اثرات موجودہ حالات کے ساتھ مستقبل پر بھی منفی پڑ سکتے ہیں، پورا سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے، مختلف فریق سے پوچھے اور ایسا حل دے جو آنے والے وقت میں آب حیات ہو۔
جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو آواز اٹھانا ہمارا بھی حق بنتا ہے، انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت ختم کرکے زیادتی کی گئی، میں اپنی حدود کراس کرنا نہیں چاہتا، میں تنقید کرنا نہیں چاہتا، اچھی بات یہ ہے کہ 9 رکنی بینچ بنایا گیا ہے، یہ فیصلہ 9 ججز نہیں بلکہ فل کورٹ کو سننا چاہیے، پوری کورٹ فریقین کو سن کر فیصلہ کرے، پوری قوم عدالتی فیصلوں سے متاثر ہوتی ہے۔
معزز ایوان کے فلور پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹیرینز ججز کا نام لے کر تنقید کرتے رہتے ہیں، کچھ ججز پر تنقید کی جاتی ہے تو کچھ پر کیوں نہیں ہوتی؟جسٹس ثاقب اور جسٹس کھوسہ پر تنقید ہوتی ہے تو جسٹس ناصرالملک پر کیوں نہیں ہوتی؟ یہ سوال عدلیہ کے لیے ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہےکہ دو اسمبلیوں کی تحلیل درست ہوئی ہے یا نہیں؟ آئین کو ری رائٹ کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے،جس طرح آرٹیکل 63 کو ری رائٹ کیا گیا ہے یہ اس کے اثرات ہیں۔
طالبان کو پاکستان میں واپس کون لایا؟
خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید سے کوئی پوچھنے والا ہے؟ دونوں جرنیلوں نے افغانستان سے ہزاروں جنگجو طالبان (ٹی ٹی پی) کو واپس پاکستان لا کر بسایا اور ہمیں بتایا گیا وہ پرامن رہیں گے اور پھر پشاور مسجد میں 100 سے زیادہ لوگ مار دیئے گئے۔
پرویز الہیٰ
خواجہ آصف نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے متعلق ایک واقعہ بھی بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے پرویز الہیٰ نے خود بتایا کہ ایک بیوروکریٹ کی بیٹی کی شادی پر گیا تو وہاں ایک بندہ پیسے اکٹھا کر رہا تھا، جب اس سے پوچھا کہ کتنے پیسے اکٹھے ہوئے ہیں تو جواب ملا کہ 72 کروڑ اکٹھے ہوگئے ہیں اور ابھی کام جاری ہے، اس بندے نے بتایا کہ اس مرتبہ پیسے کم ہوئے ہیں، اس سے پہلے ان کی بیٹی کی شادی پر ایک ارب 20 کروڑ روپے اکٹھے ہوئے تھے۔
نواز شریف کیساتھ زیادتی ہوئی،تاحیات نااہل ہوئے
وزیر دفاع نے برطرف وزیراعظم نواز شریف سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے چلے جائیں کہ جب اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 63-اے کو ری رائٹ کیا، یہ ان کا کام نہیں تھا اور جس آئینی بحران کا ہم اس وقت سامنا کررہے ہیں یہ اس کا براہِ راست اثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورا ملک سیاسی، معاشی اعتبار سے رک جانے کے قریب پہنچا ہوا ہے، یہ سارا سلسلہ اگر جانا ہے تو اس وقت جو لوگ ملوث تھے ان سب کے براہِ راست اور بالواسطہ اعترافات بھی آچکے ہیں کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جس طرح زیادتی ہوئی، انہیں تاحیات نااہل کیا گیا، کون سا ایسا ادارہ ہے جس کے کسی فرد کو کوئی اور ادارہ نااہل کردے، یہ کہاں کی مثال، کہاں کا قانون ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت سے شروع ہونا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کے بھی اعترافات موجود ہیں کہ ہم نے اس میں مداخلت کی، عدلیہ کے اعترافات بھی موجود ہیں کہ اس کیس میں تجاوز ہوا تھا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت، شاہ محمود قریشی بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس ایوان کے توسط سے میری عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ پوری کورٹ کا بینچ بنا کر پاناما سے شروعات کریں، اس ملک اور خصوصاً سیاسی برادری کے ساتھ آئینی اور قانون کے لبادے میں جو زیادتی ہوئی ہے، ایک ایسے شخص کو مسلط کیا گیا کہ جس نے 4 سے 5 سال کے اندر ملک کو تہہ و بالا کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کا حق استعمال کیا گیا لیکن ساتھ ہی حکومت تحلیل کردی گئی اور جس نے کی وہ آج بھی صدارتی محل میں بیٹھا ہوا اور آئین کی دفہ 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے کیا کسی نے اس بات کا نوٹس لیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹھیک ہے کہ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کردی لیکن بجائے اس کے باقی قانونی مراحل بھی اسی طرح طے ہوتے 63-اے کی دوبارہ تشریح کردی گئی پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب میں جس طرح تحلیل ہوئی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس کو بھی دیکھا جائے کہ اسمبلیاں سیاسی وجوہات پر تحلیل کی گئیں یا عوامی مفاد میں، یا آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کی گئی، یہ تمام سوالات جواب چاہتے ہیں، جو ہمارے پاس تو ہے لیکن انصاف کا ترازو اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تنقید نہیں کرنا چاہتا کہ بینچ میں ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کہ جن کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے لیکن پوری کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کو سنے تو گزشتہ 8 ماہ میں جو کچھ ہوا اسے ری ایڈریس کیا جاسکتا ہے۔ مسلسل بحران میں رہنے کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔
عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہی نہیں کسی ملک کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک بندہ باہر گاڑی میں بیٹھا ہوا ہے اسے عدالت بلا رہی ہے، اسے عدالت کہہ رہی ہے کہ آجاؤ وہ نہیں آتا، لاڈ پیار سے کہتے ہیں، قانونی و آئینی طور پر کہتے ہیں وہ نہیں آتا جب کہ ہماری تو ایک مرتبہ میں ہی ضمانتیں منسوخ ہوجاتی ہیں۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/bnqlAOa
0 Comments