کوئٹہ پولیس نے بارکھان واقعہ کا مقدمہ بالا آخر 5 روز بعد درج کرلیا ہے۔ تاہم مقدمے میں کسی متعلقہ شخص کے بجائے “ نامعلوم افراد “ کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
مقدمہ درج
سما کو موصول رپورٹ کے مطابق سانحہ بارکھان کا واقعہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ درج کی گئی ایف آئی آر میں بجرم 302 , 201 اور 34 دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔ واقعے کا مقدمہ پولیس تھانا بارکھان میں 48 گھنٹے بعد درج کیا گیا۔ مقدمہ ایس ایچ او پولیس تھانہ بارکھان فدا اللہ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ورثاء کے انتظار کے باعث مقدمہ درج کرنے میں تاخیر ہوئی، انتظار کے باوجود ورثاء پیش نہیں ہوئے، دوسری جانب آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے کہ کیس کرائم برانچ کے حوالے کردیا گیا ہے، بارکھان واقعہ کی غیر جانبدرانہ تحقیقات ہوں گی۔
درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو مورخہ 20 فروری کی رات کو مری قبیلے کے افراد کی لاشوں سے متعلق اطلاع ملی۔ اطلاع ملنے کے بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچی تو تین افراد مردہ حالات میں پائے گئے۔ معلومات اکھٹا کرنے کے بعد پولیس کی جانب سے محمد خان مری سے رابطہ کیا گیا۔
درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ محمد خان مری نے اس بات کی تصدیق کی کہ لاشیں اس کی اہلیہ، اور دو بچوں کی ہیں۔ ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقتولین کی آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ایک مقتول کو گولی سر پر ماری گئی اور پورے جسم پر تشدد اور خراشوں کے نشانات تھے۔
دوسرے مقتول کے سر کے پیچھے حصے میں گولی ماری گئی اور اس کی ٹانگ بھی ٹوٹی ہوئی تھی، جب کہ پورے جسم پر بھی شدید تشدد کے نشانات تھے۔ خاتون سے متعلق ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مقتولہ کا پورا چہرہ مسخ شدہ تھا، جب کہ اس کے کان اور منہ میں بھی گولیاں ماری گئی تھیں۔ علاوہ ازیں خاتون کے بھی پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق تینوں لاشوں کی علیحدہ علیحدہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کیلئے سول اسپتال بارکھان روانہ کیا گیا۔ ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزمان کی نامزدگی کیلئے متاثرہ لواحقین کی جانب سے کسی کا نام نہیں لیا گیا، جس کے بعد پولیس نے مقدمہ نامعلوم افراد کیخلاف درج کر دیا ہے۔
مقتولین کا پوسٹمارٹم
سانحہ بارکھان کے مقتولین کا پوسٹ مارٹم مکمل کرلیا گیا ہے۔ پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ کے مطابق خاتون کی عمر 17 سے 18 سال کے درمیان ہے۔ مقتولہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد بھی کیا گیا۔ سرجن کے مطابق مقتولہ خان محمد کی بیوی نہیں، بیٹی ہوسکتی ہے۔ سرجن نے یہ بھی بتایا کہ خاتون کے سر پر تین گولیاں ماری گئیں۔ شناخت چھپانے کیلئے چہرے اور گردن پر تیزاب پھینکا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لڑکی سے زیادتی سے متعلق ٹیسٹ سیمپل بھی حاصل کرلیے گئے ہیں، قتل ہونیوالے دوسری لاش کی عمر 24 سے 25 سال ہے۔ دوسرے شخص کو پیچھے سر میں گولی ماری گئی، جو جبڑے میں تاحال موجود یے۔
قتل ہونیوالے تیسرے شخص کی عمر 14 سے 15 ہے، تیسرے شخص کو بھی سر میں گولی ماری گئی۔ تینوں افراد کو بدترین تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔ تینوں لاشوں کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ سیمپل بھی حاصل کرلئے گئے ہیں۔ تینوں لاشوں کے دیگر ٹیسٹ کیلئے سیمپل بھی حاصل کئے گئے ہیں۔
بارکھان آپریشن مکمل
لیویز حکام کے مطابق کوہلو میں آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے۔ خان محمد مری کی مغوی اہلیہ، بیٹی اور چاروں بیٹوں کو بازیاب کرالیا گیا ہے، جس کے بعد انہیں لیویز ہیڈکوارٹر کوہلو منتقل کیا گیا۔ لیویز اہلکاروں نے مبینہ طور پر صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید خان محمد مری کے اہل خانہ کو بازیاب کرلیا۔
ذرائع نےمزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں نے خفیہ اطلاع پر دور دراز مقام پر چھاپہ مار کر تینوں کو بازیاب کرایا۔ ذرائع کے مطابق بازیاب افراد کو کمشنر ژوب کے حوالے کر دیا گیا ہے، رسمی قانونی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے بعد انہیں ان کے خاندان کے ساتھ ملایا جائے گا۔
صوبائی وزیر اور دیگر کی گرفتاریاں
آئی جی بلوچستان کا کہنا ہے کہ خاتون اور دو بچوں کے قتل کیس میں مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ بلوچستان پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ حاجی کوٹ کے علاقے میں چھاپے کے دوران سردار عبدالرحمان کھیتران کے بھتیجے کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران کو تفتیش کیلئے کوئٹہ ڈی آئی جی آفس میں طلب کیا گیا ہے اور ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد متعلقہ حکام نے انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا۔
عین ممکن ہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران کو آج عدالت میں پیش کیا جائے، تاکہ ان کا ریمانڈ حاصل کیا جاسکے، وزیر کے خلاف بارکھان پولیس اسٹیشن میں قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے کیس کو کرائم برانچ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
بارکھان قتل کی تحقیقات کے لیے بلوچستان کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ سلمان چوہدری کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ ٹیم کے دیگر ارکان میں کوئٹہ کے ڈی آئی جی ریٹائرڈ کیپٹن اظفر مہیسر، اسپیشل برانچ کے ڈی آئی جی اور کوئٹہ کے ایس ایس پی شامل ہیں۔
دریں اثنا بدھ کے روز مختلف قبائل کے ایک جرگے نے بارکھان قتل واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت کو احتجاج کرنے والے مری قبائل کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کے لیے دو روز کی مہلت دی ہے۔
کیس کی ابتدا
پولیس کے بیان کے مطابق خاتون کے شوہر اور بچوں کے والد خان محمد مری کی مدعیت میں 18 جنوری 2023 کو مقتولین سمیت خاندان کے دیگر افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔ مقدمے میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ترجمان اور صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران، جو کوہلو بارکھان سے منتخب نمائندے ہیں، کو نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے کے مدعی محمد مری کا کہنا تھا کہ سال 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران اور ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے درمیان تنازع میں گواہی نہ دینے پر اس کی بیوی اور جواں سالہ بیٹی سمیت 7 بچوں کو سردار نے نجی جیل میں قید کر لیا تھا۔
تاہم خان محمد مری کی بیوی کی رہائی سے متعلق ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد ان کی لاشیں کوہلو کے علاقے بارکھان کے دور درزا علاقے میں کنویں سے برآمد ہوئی ہیں جنہیں تشدد کر کے قتل کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو
واقعہ سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں خاتون کو قرآن پاک ہاتھ میں پکڑ کر کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں، یہ قرآن سب سے بڑھ کر ہے، سردار عبدالرحمان کھیتران نے مجھے جیل میں قیدی بنا کر رکھا، وہ روز میری بیٹی کا جنسی استحصال کرتا ہے اور میرے بیٹوں کو بھی قید کر رکھا ہے، کوئی ہمیں رہائی دلائے۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/6TVZuh0
0 Comments