Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

Responsive Advertisement

سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل باقاعدہ قانون بن گیا

سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل عدالتی فیصلے کے باوجود باقاعدہ قانون بن گیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر ہر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پارلیمنٹ کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پرنٹنگ کارپوریشن کو گزٹ نوٹیفیکیشن کا حکم دے دیا ، جس کے مطابق تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر قانون اب نافذ ہوچکا ہے۔

خیال صدرمملکت عارف علوی نےسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل دوبارہ بغیردستخط واپس بھیج دیا تھا۔عارف علوی کا کہنا تھاکہ قانون سازی کی اہلیت اور بل کی درستگی کا معاملہ اعلیٰ ترین عدالتی فورم کے سامنےزیر سماعت ہے، اورمعاملہ زیرسماعت ہونے کے احترام میںبل پر مزید کوئی کارروائی مناسب نہیں ۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نےسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پرعملدرآمد روک تھا، اور کہا تھا کہ بل پرصدردستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں عملدرآمد نہیں ہوگا۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھاکہ عدالت کسی قانون کو معطل نہیں کرسکتی، بادی النظرمیں بل کےذریعےعدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔

بل کی شقیں

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے قومی اسمبلی سے ترامیم کے بعد منظور کیے گئے بل میں کہا گیا تھاکہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔



from Samaa - Latest News https://ift.tt/e5xYbRM

Post a Comment

0 Comments