لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب سے جیوفینسنگ کے طریقہ کار اور مقدمات کی کارروائی کی رپورٹ طلب کرلی۔
خاتون کی بیٹے کی بازیابی کیلئے درخواست پرسماعت کے دوران آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے، جسٹس انوارالحق پنوں نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تو آپ کو بلانے کاکوئی شوق نہیں، آپ ملک کےسب سے بڑے صوبے کی پولیس کےسربراہ ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں پولیس عدالتوں کی درست معاونت کرے۔
جسٹس انوارالحق نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا ہورہاہے قانون کوکیوں فالونہیں کیا جارہا؟ ایک کیس سے شہری رہا ہوتاہے تو دوسرے میں گرفتار کرلیتے ہیں، آپ،میں اور سرکاری ادارے ہم سب ملازم ہیں،تنخواہ لیتےہیں، عوام نےہمیں ملازم رکھاہواہے، ہمیں حکمرانی کیلئے نہیں بلکہ خدمت کیلئے رکھا گیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آپ نے بھی ریٹائرہوناہےہم نےبھی، کسی ایک کوترجیح نہ دیں، آئی جی صاحب آپ کواورہمیں اسی معاشرے میں ریٹائرمنٹ کے بعد رہناہے، ہم لوگوں کوجیلوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑسکتے۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ درج مقدمات میں جے آئی ٹیز بناکر تحقیقات کی جارہی ہیں، خواتین پولیس اہلکار اور افسران پرتشدد کرنے میں ملوث افراد کو پکڑ رہے ہیں، واٹس ایپ گروپس کابھی پتہ چلااس کو چیک کرکےکارروائی کی جارہی ہے، سوشل میڈیا،سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد لیکرگرفتار کیاجارہاہے۔
ڈاکٹر عثمان انور نے مزید کہا کہ 9 مئی مئی کے واقعات میں جناح ہاؤس سمیت اہم تنصیبات کو نقصان ہوا، طالبان کی طرزپر گوجرانولہ، لاہور سمیت شہروں میں یہ واقعات ہوئے، جیوفینسنگ کےذریعےنشاندہی کرکے گرفتاری کی جارہی ہے۔ شناخت پریڈکے بعد بے گناہ افراد کو رہا کردیا جائے گا۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/6ZKFCL1
0 Comments