Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertisement

Responsive Advertisement

ملک ٹرانزیشن کے مرحلے میں ہے صبر سے کام لینا چاہیے چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اور ریو یوآف ججمنٹ کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔

دوران سماعت تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ، احتیاط برتنی چاہیے، فیصلہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جانب سے اب تک کے تین پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں، فیصلے میں دوراندیشی ہے وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ بھارت میں تعصب اور حق سماعت نہ ملے تو نظرثانی ہوتی ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کریمنل ریویومیں صرف نقص دورکیا جاتا ہےسول میں اسکوپ بڑا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کیا پارلیمنٹ ریویو اسکوپ بڑھا سکتی ہے؟ نظر ثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں بدلا نہیں جا سکتا، آپکے مطابق وہ دراصل 184 (3) کے اثر کو کم تر کررہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں184(3) کا دائرہ کم کریں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سےکریں، جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ جی ہم یہی کہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی میں آپ کو دکھانا ہوگا کون سا نقص فیصلہ میں موجود ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس قانون کو صرف 184(3) تک محدود کیا گیا ہے، ایک محدود مقصد کے لیے ریویو کو اپیل بنا دیا گیا، کل پارلیمنٹ ایک اورقانون بناتی ہے کہ ایک نہیں دو اپیلیں ہوا کریںگی تو کیا ہوسکتا ہے؟یرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ محض قانون سازی سے نہیں آئینی ترمیم سے کرسکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ نظرثانی میں کوئی نئی گراؤنڈ لی جائےتووہ اختیار نظر ثانی کا بڑھا نہیں دےگی؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اس گراؤنڈ پر نظرثانی ہوجائے تو بھی فیصلہ تو کالعدم ہوجائے گا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آپ لارجر بینچ میں نظرثانی کےلیے جائیں گے تو یہ دوبارہ سماعت جیسا ہوگا، لارجر بینچ میں نئے جج بیٹھے ہوں گے وہ دوبارہ ہی سنیں گے، قانون آنے سے پہلے زیرالتوا مقدمات پر اس کا اطلاق نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں اس وقت الیکشن کمیشن کی پنجاب الیکشن پرنظرثانی پر التواء ہےاس پراسکا اطلاق نہیں؟ جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی ہم یہی کر رہے ہیں۔

عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل سے کل دلائل طلب کرتے ہوئے درخواستوں پرسماعت کل تک ملتوی کردی۔ اس سے قبل دوران سماعت درخواستگزار ریاض حنیف راہی روسٹرم پر آ گئے، ریاض حنیف راہی نے کہا کہ میں بیرسٹر علی ظفر کے دلائل ہی اپنا لیتا ہوں، اپیل اور نظرثانی میں ایک فرق ہوتا ہے، اپیل فریقین کےدرمیان دلائل سے فیصلے سے پہنچتی ہے۔ نظرثانی میں عدالت خود اپنےفیصلےکا دوبارہ جائزہ لیتی ہے۔

ریاض حنیف راہی کی جانب سے خوشنودی اور دائرہ اختیارجیسی اصطلاحات کے استعمال پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ ادبی سی باتیں یہاں نہ کریں کہیں اور کریں، ریاض حنیف راہی نے کہا کہ میں انتہائی مشکل حالات میں اپنی گزارشات پیش کر رہا ہوں، مجھ پر دباؤ تھا کہ میں درخواست واپس لے لوں۔

چیف جسٹس نے ریاض حنیف راہی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو میرے پاس آ جائیں، ہمارا ملک اس وقت ٹرانزیشن کے مرحلے میں ہے، اس صورتحال سے نمٹنا سیکھیں۔ ہم سب کوشکایت کے بجائے حوصلہ، صبر سے کام لینا چاہیے۔



from Samaa - Latest News https://ift.tt/qEIhiao

Post a Comment

0 Comments