تحریر: کاشف شمیم صدیقی
”چلیے اب ہم کہانیاں سنتے ہیں۔ ۔ ۔ جنسی تشدد کی کہانیاں۔ ۔ ۔ جی، پہلے آپ سے شروع کرتے ہیں۔ ۔ ۔“ ہوٹل کے ٹھنڈے یخ ہال میں خاتون ٹرینر نے اشارہ تو ایک خاتون کی طرف کیا تھا، لیکن چونکا سب کو دیا تھا، غربت اور پسماندگی کا شکار عورتوں کے چہروں پر آئی گھبراہٹ، خوف اور بے چارگی کی لہر کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا، وہ ہال کی کشادہ کرُسیوں پر بیٹھی، خود میں مزید سمٹ سی گئی تھیں۔ یہ عورتیں، جنسی تشدد کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک ”آگاہی پروگرام“ میں شرکت کے لیے دور، دراز کے پسماندہ علاقوں سے آئی تھیں۔
“جو بھی آپ کے ذہن میں ہے اُسے لکھیے، تصویریں بنائیے، کوئی شعر لکھ دیجئے، جنسی تشدد کے خلاف اپنے خیالات، اپنی آواز کو جس طرح بھی قلمبند کرسکتے ہیں، کیجئے “ رول پلے(Role Play)کی ایکٹیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد، ٹرینر نے دوسری سرگرمی کا آغاز کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ پھر اسی طرح کے کچھ اور کام بھی ہوتے رہے، اور پھر شام ڈھلے پروگرام اختتام پزیر ہوگیا۔
آگاہی پروگرام کا کچھ احوال آپ نے ملا حظہ فرمایا، اب ہم آجاتے ہیں اصل مدّعے پر، تو جناب بات دراصل یہ ہے کہ آجکل جنسی اور صنفی تشدد پر بہت زیادہ باتیں کی جارہی ہے، اس سلسلے میں مختلف نوعیت کے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں، جن میں زیادہ تر آگاہی کے پروگرام شامل ہیں، اس سلسلے میں سو شل میڈیا پر نت نئے طریقوں کو بھی اختیار کیا جا رہا ہے، ایسے مواد (Content) کی تیاری عمل میں لائی جارہی ہے جس سے معاشرے میں زیادہ سے زیادہ جنسی اور صنفی تشدد کے موضوع کو عام کیا جائے۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہر قسم کے تشدد اور زیادتی کے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیے، مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں ملنی چاہئیں، لوگوں کو اپنے حقوق سے آگاہی ہونی چاہیے اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ تشدد کے خاتمے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے، ہمارے کاموں، ہماری ایکٹیوٹیز کی اصل روح کیا ہے؟ کیا جنسی اور صنفی تشدد پر بات کرتے ہوئے ہم اپنی اخلاقی، سماجی اور مذہبی قدروں کو سامنے رکھتے ہیں؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے، کیا نہیں، کیا صحیح ہے کیا غلط، کیا اس پوائنٹ پر سوچا جاتا ہے؟ یا پھر بس جو دل میں آیا کہہ دیا، جو دماغ میں سمایا کر دیا!!
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ پروگرامز ہوں اور ضرور ہوں لیکن ان سرگرمیوں میں اگر ان وجوہات کے بارے میں سمجھایا جائے کہ جن کی وجہ سے(عام طور پر) تشدد فروغ پاتا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے معاشرتی بے راہ روی جنسی تشدد میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، فلمیں، ناچ گانے، بیہودہ محفلیں (Gatherings)، شرمناک گفتگو، 24 گھنٹے انٹرنیٹ کی حاصل سہولت، لوگوں کی صحتمندانہ سرگرمیوں سے دُوری، مثبت مصروفیات کی کمی، کام چوری، فراغت، خالی ذہن ۔ ۔ ۔ یہ تمام چیزیں بالآخر جنسی تشدد سے جا ملتی ہیں۔
لوگوں کی بڑی تعداد کا یہ ماننا بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات سے دُوری منفی ذہن سازی کو فروغ دے رہی ہے، جنسی اور صنفی تشدد کرنے والوں کی سوچ، احساسات اور جذبات نئے اور جدید (Modren) دور میں ر چ بس کر شدید تر ہوتے چلے جارہے ہیں،تشدد کے موضوعات پر ہونے والے پروگرام “ بے باکی “ کو جنم دے رہے ہیں، شرم و حیا کے عنصر (Element) کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے ہے، اسلامی ماحول کا نفاذ ہر قسم کی برائیوں سے بچنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
دوسری جانب یہ آراء بھی سامنے آتی ہے کہ دقیانوسی روایات، سوچ اور طریقے ترقی کی راہ میں حائل ہیں، فرسودہ اور پسماندہ ذہن کشادگی چاہتے ہیں، جنسی، جسمانی اور صنفی تشدد جیسے مسائل کا حل نئے دور کے ساتھ قدم ملا کر چلنے میں ہی پوشیدہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں تشدد کے حوالے سے موجود کچھ نقطہ نظر آپ نے پڑھے، اب بات یہ ہے کہ اس حقیقت سے تو با لکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی ضروری ہے، پسماندہ منفی سوچ سے چھٹکارا بھی نا گزیر ہے، جدید دور نے انسانوں کو جو“ آسانیاں “ فراہم کی ہیں وہ بہت کام آرہی ہیں، ترقی پسندانہ سوچ کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ۔ ۔ لیکن یہ سارے کام کرتے ہوئے ہمیں اپنے سماجی، اخلاقی اور مذہبی پہلوؤں کو بھی سامنے رکھنا ہوگا، جو حدود متعین ہیں ان کی پاسداری لازمی کرنا ہوگی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جنسی اور صنفی تشدد کے پروگراموں میں سنجیدہ رویوں اور طرزِ عمل کو اختیار کرتے ہوئے ایسی ایکٹیوٹیز اپنا لی جائیں جو ہماری پہچان، ہماری شناخت سے متصادم نہ ہوں، شرکاء کے اعتماد میں اضافے کا سبب بنیں اور یہ پروگرام تشدد کے خاتمے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں جائیں۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/K7yRWqx
0 Comments